Monday 19 September 2016

کل سنا ہم نے یہ کہتا تھا وہ اک ہمراز سے

کل سنا ہم نے یہ کہتا تھا وہ اک ہمراز سے
دیکھتا تھا مجھ کو آج اک شخص عجب انداز سے
وہ نیازِ و عِجز تھا اس کی نِگہ سے آشکار
جس طرح سے تھک رہے طائر کہیں پرواز سے
تُو جو واقف ہو تو جا اس کو بُلا لا اس گھڑی
میں تسلی دوں اسے کچھ شرم سے، کچھ ناز سے
ہے مِرا ملنے کو اس کے دل نہایت بے قرار
سن کے وہ ہمراز بولا، اس بتِ طناز سے
میں تو اس کو جانتا ہوں، نام اس کا ہے نظیرؔ
اور خبر ہے مجھ کو اس کی چاہ کے آغاز سے
تم ہو سادہ، مہر دل، اس کو بکھیڑے یاد ہیں
اور سوا اس کے، مِرا ڈرتا ہے جی غماز سے
ہنس کے وہ گلرو لگا ہمراز سے کہنے، میاں
کچھ ہی ہو، ہم تو ملیں گے اس بکھیڑے باز سے

نظیر اکبر آبادی

No comments:

Post a Comment