کل سنا ہم نے یہ کہتا تھا وہ اک ہمراز سے
دیکھتا تھا مجھ کو آج اک شخص عجب انداز سے
وہ نیازِ و عِجز تھا اس کی نِگہ سے آشکار
جس طرح سے تھک رہے طائر کہیں پرواز سے
تُو جو واقف ہو تو جا اس کو بُلا لا اس گھڑی
ہے مِرا ملنے کو اس کے دل نہایت بے قرار
سن کے وہ ہمراز بولا، اس بتِ طناز سے
میں تو اس کو جانتا ہوں، نام اس کا ہے نظیرؔ
اور خبر ہے مجھ کو اس کی چاہ کے آغاز سے
تم ہو سادہ، مہر دل، اس کو بکھیڑے یاد ہیں
اور سوا اس کے، مِرا ڈرتا ہے جی غماز سے
ہنس کے وہ گلرو لگا ہمراز سے کہنے، میاں
کچھ ہی ہو، ہم تو ملیں گے اس بکھیڑے باز سے
نظیر اکبر آبادی
No comments:
Post a Comment