Tuesday 20 September 2016

مت پوچھ کہ رحم اس کو مرے حال پہ کب تھا

مت پوچھ کہ رحم اس کو مِرے حال پہ کب تھا
اب کہنے سے کیا فائدہ، جب تھا، کبھی تب تھا
اتنا بھی تو بے چین نہ رکھ دل کو مِرے تُو
آخر یہ وہی دل ہے جو آرام طلب تھا
کیا دل کے لگانے کا سبب پوچھے ہے ہمدم
بے چیز تو البتہ نہیں کچھ تو سبب تھا
روتا تھا کبھی اور کبھی ہنستا تھا نپٹ میں
شب عالمِ وحشت میں مِرا حال عجب تھا
کعبے کو گیا چھوڑ کے کیوں دل کو تُو اے شیخ
ٹک جی میں سمجھتا تو سہی یاں بھی تو رب تھا
غصہ بھی تِرا یاد وہ حال ہے میرا
گر یہ بھی نہ ہوتا تو مِری جان غضب تھا
مجنوں کی بھلی بات لیے پھرتا ہے اہاہ
سن حال نہ ٹک تازہ حسنؔ کا کہ وہ اب تھا​

میر حسن دہلوی

No comments:

Post a Comment