زخم خوردہ تو اسی کا تھا سِپر کیا لیتا
اپنی تخلیق سے میں دادِ ہنر کیا لیتا
وہ کسی اور تسلسل میں رہا محوِ کلام
میری باتوں کا بھلا دل پہ اثر کیا لیتا
اسکو فرصت ہی نہ تھی نازِ مسیحائی سے
ایک آواز پہ مقسوم تھا چلتے رہنا
بے تعین تھا سفر، رختِ سفر کیا لیتا
سازِ لب گُنگ تھے، بےنُور تھی قندیلِ نظر
ایسے ماحول میں الزامِ ہنر کیا لیتا
بےنیازانہ رہا اپنی روش پر محسنؔ
شب پرستوں سے بھلا فالِ سحر کیا لیتا
محسن بھوپالی
No comments:
Post a Comment