Sunday 18 September 2016

زخم خوردہ تو اسی کا تھا سپر کیا لیتا​

زخم خوردہ تو اسی کا تھا سِپر کیا لیتا​
اپنی تخلیق سے میں دادِ ہنر کیا لیتا​
وہ کسی اور تسلسل میں رہا محوِ کلام​
میری باتوں کا بھلا دل پہ اثر کیا لیتا​
اسکو فرصت ہی نہ تھی نازِ مسیحائی سے​
اپنے بیمار کی وہ خیر خبر کیا لیتا​
ایک آواز پہ مقسوم تھا چلتے رہنا​
بے تعین تھا سفر، رختِ سفر کیا لیتا​
سازِ لب گُنگ تھے، بےنُور تھی قندیلِ نظر​
ایسے ماحول میں الزامِ ہنر کیا لیتا​
بےنیازانہ رہا اپنی روش پر محسن​ؔ
شب پرستوں سے بھلا فالِ سحر کیا لیتا​

محسن بھوپالی

No comments:

Post a Comment