جب ہم نے اپنا اپنا قبیلہ الگ کیا
رستے الگ بنا لیے، دریا الگ کیا
وہ ریت دوسروں کے مقدر کی ریت تھی
سو ہم نے اپنے نام کا صحرا الگ کیا
اس پار بُود و باش رہی ہم سے مختلف
جب بھی کہیں حساب کیا زندگی کا دوست
پہلے تمہارے نام کا حصہ الگ کیا
پھر یوں ہوا کہ بھول گئے اس کا نام تک
جتنا قریب تھا اسے اتنا الگ کیا
خوابوں کا اک ہجوم تھا آنکھوں کے آس پاس
مشکل سے اپنے خواب کا چہرہ الگ کیا
احمدؔ مری شناخت ہی مٹی میں مل گئی
مٹی نے ایک روز مجھے کیا الگ کیا
احمد رضوان
No comments:
Post a Comment