چمک رہی ہے پروں میں اڑان کی خوشبو
بلا رہے ہی بہت آسمان کی خوشبو
بھٹک رہی ہے پرانی دلائیاں اوڑھے
حویلیوں میں مِرے خاندان کی خوشبو
سنا کے کوئی کہنی ہمیں سلاتی تھی
دبا تھا پھول کوئی میز پوش کے نیچے
گرج رہی تھی بہت پیچوان کی خوشبو
عجب وقار تھا سوکھے سنہرے بالوں میں
اداسیوں کی چمک زرد لان کی خوشبو
وہ عطر دان سا لہجہ مِرے بزرگوں کا
رچی بسی ہوئی اردو زبان کی خوشبو
خدا کا شکر ہے میرے جوان بیٹے کے
بدن سے آنے لگی زعفران کی خوشبو
عمارتوں کی بلندی پہ کوئی موسم کیا
کہاں سے آ گئی کچے مکان کی خوشبو
گلوں پہ لکھی ہوئی لا الہ الا اللہ
پہاڑیوں سے اترتی اذان کی خوشبو
بشیر بدر
No comments:
Post a Comment