Friday, 23 September 2016

کسی مزار پہ چادر چڑھانے والی نہيں

کسی مزار پہ چادر چڑھانے والی نہيں
تمہیں کہا تھا یہ لڑکی زمانے والی نہيں
مجھے خبر ہے اسے دھوپ سے محبت ہے 
وہ برف پوش پہاڑوں پہ آنے والی نہيں
مزے کی بات ہے سب کو بتاتا پھِرتا ہوں 
وہ ایک بات جو سب کو بتانے والی نہیں
تو اس پہ لوگوں کا جمِ غفیر سا کیوں ہے 
اگر یہ جھیل کسی کو ملانے والی نہيں
ہر ایک زہر کا تریاق ہے ابھی مِرے پاس 
یہ غیبتیں مِری الجھن بڑھانے والی نہيں
اسی لیے تو فقیروں میں اٹھتا بیٹھتا ہوں 
کہ بادشاہی مجھے راس آنے والی نہيں
تمہیں تو خیر کبھی چھوڑ ہی نہيں سکتے 
ہمارے ہاتھ سے دنیا بھی جانے والی نہيں
میں اس کے جسم نہيں روح میں پڑا ہوا ہوں 
وہ بھول کر بھی مجھے بھول پانے والی نہيں
تو کس خوشی میں چراغاں کیا گیا عامیؔ 
اگر وہ آج بھی دریا پہ آنے والی نہيں

عمران عامی

No comments:

Post a Comment