کسی مزار پہ چادر چڑھانے والی نہيں
تمہیں کہا تھا یہ لڑکی زمانے والی نہيں
مجھے خبر ہے اسے دھوپ سے محبت ہے
وہ برف پوش پہاڑوں پہ آنے والی نہيں
مزے کی بات ہے سب کو بتاتا پھِرتا ہوں
تو اس پہ لوگوں کا جمِ غفیر سا کیوں ہے
اگر یہ جھیل کسی کو ملانے والی نہيں
ہر ایک زہر کا تریاق ہے ابھی مِرے پاس
یہ غیبتیں مِری الجھن بڑھانے والی نہيں
اسی لیے تو فقیروں میں اٹھتا بیٹھتا ہوں
کہ بادشاہی مجھے راس آنے والی نہيں
تمہیں تو خیر کبھی چھوڑ ہی نہيں سکتے
ہمارے ہاتھ سے دنیا بھی جانے والی نہيں
میں اس کے جسم نہيں روح میں پڑا ہوا ہوں
وہ بھول کر بھی مجھے بھول پانے والی نہيں
تو کس خوشی میں چراغاں کیا گیا عامیؔ
اگر وہ آج بھی دریا پہ آنے والی نہيں
عمران عامی
No comments:
Post a Comment