Sunday 18 September 2016

ردا اس چمن کی اڑا لے گئی

رِدا اس چمن کی اڑا لے گئی
درختوں کے پتے ہوا لے گئی
جو حرف اپنے دل کے ٹھکانوں میں تھے
بہت دُور ان کو صدا لے گئی
چلا میں صعوبت سے پُر راہ پر
جہاں تک مجھے انتہا لے گئی
گئی جس گھڑی شامِ سحرِ وفا
مناظر سے اک رنگ سا لے گئی
نشاں اک پرانا کنارے پہ تھا
اسے موج دریا بہا لے گئی
منیر اتنا حسن اس زمانے میں تھا
کہاں اس کو کوئی بلا لے گئی

منیر نیازی

No comments:

Post a Comment