ترتیبِ نشیمن کیا ہو گی، آئینِ گلستاں کیا ہو گا
آغاز بہاراں! کچھ تو بتا! انجامِ بہاراں کیا ہو گا
اندازۂ طوفاں ہوتا ہے طوفاں کے قریب آ جانے سے
ساحل پہ بسیرا کرنے سے اندازۂ طوفاں کیا ہو گا
یہ گلشنِ نو ہے گلشنِ نو اے فکرِ کہن کے دیوانو
جس غم سے تسکیں ملتی ہو اس غم کا مداوا کون کرے
جس درد میں لذت پنہاں ہو اس درد کا درماں کیا ہو گا
تہذٰب کا پرچم لہرایا،۔۔ ہر شہر و چمن ویران ہوا
تعمیر کا ہے ساماں جو یہی تخریب کا ساماں کیا ہو گا
ماحول کی گرد سے کچھ ایسا دھندلایا حال کا آئینہ
کچھ اس میں نظر آتا ہی نہیں مستقبلِ انساں کیا ہو گا
اے بھاگنے والے وقت ہے یہ ہاں صحنِ چمن سے بھاگ نکل
جب باغ قفس بن جائے گا،۔ اس وقت گریزاں کیا ہو گا
جگن ناتھ آزاد
No comments:
Post a Comment