کس قدر روپ بدلتا ہے یہ سودائی بھی
خود ہی مقتول بھی، قاتل بھی تماشائی بھی
خود کبھی اس کی محبت سے گریزاں مِرا دل
اور کبھی اس کی محبت کا تمنائی بھی
صرف احباب گزیدہ ہی نہیں ہوں کہ مجھے
جن کے ہاتھوں نے مِری شب سے ستارے نوچے
ان کے لشکر میں کھڑا ہے مِرا ہرجائی بھی
اک تِرے ہِجر کا غم بھی کسی محشر سے وراء
اس پہ اک حشر مِری قافیہ آرائی بھی
عبدالرحمان واصف
No comments:
Post a Comment