Monday 26 September 2016

کس قدر روپ بدلتا ہے یہ سودائی بھی

کس قدر روپ بدلتا ہے یہ سودائی بھی
خود ہی مقتول بھی، قاتل بھی تماشائی بھی
خود کبھی اس کی محبت سے گریزاں مِرا دل
اور کبھی اس کی محبت کا تمنائی بھی
صرف احباب گزیدہ ہی نہیں ہوں کہ مجھے
دشت میں چھوڑ گئے میرے سگے بھائی بھی
جن کے ہاتھوں نے مِری شب سے ستارے نوچے
ان کے لشکر میں کھڑا ہے مِرا ہرجائی بھی
اک تِرے ہِجر کا غم بھی کسی محشر سے وراء
اس پہ اک حشر مِری قافیہ آرائی بھی

عبدالرحمان واصف

No comments:

Post a Comment