Friday 23 September 2016

ناؤ جب پانیوں سے نکلے گی

ناؤ جب پانیوں سے نکلے گی
زندگی دور دور پھیلے گی
یہ جو دریا سے اٹھ رہی ہے گھٹا 
ایک صحرا پہ جا کے برسے گی
آپ اپنی مُہار تھامے ہوئے
زندگانی ادھرے سے گزرے گی
جب بھی دیکھے گی آئینہ تومجھے
دیر تک وہ ضرور سوچے گی
کون ان آیئنوں کو دیکھے گا
ریت کن پانیوں میں چمکے گی
جب بھی رکنا ہے سیلِ باراں کو
ان پہاڑوں سے خلق اترے گی
ابرِ غم ایک دن تو چھَٹنا ہے 
دھوپ ہر سُو ضرور پھیلے گی

توقیر عباس

No comments:

Post a Comment