ناؤ جب پانیوں سے نکلے گی
زندگی دور دور پھیلے گی
یہ جو دریا سے اٹھ رہی ہے گھٹا
ایک صحرا پہ جا کے برسے گی
آپ اپنی مُہار تھامے ہوئے
جب بھی دیکھے گی آئینہ تومجھے
دیر تک وہ ضرور سوچے گی
کون ان آیئنوں کو دیکھے گا
ریت کن پانیوں میں چمکے گی
جب بھی رکنا ہے سیلِ باراں کو
ان پہاڑوں سے خلق اترے گی
ابرِ غم ایک دن تو چھَٹنا ہے
دھوپ ہر سُو ضرور پھیلے گی
توقیر عباس
No comments:
Post a Comment