Sunday 25 September 2016

اب یہ عالم ہے کہ غم کی بھی خبر ہوتی نہیں

اب یہ عالم ہے کہ غم کی بھی خبر ہوتی نہیں
اشک بہہ جاتے ہیں، لیکن آنکھ تر ہوتی نہیں
پھر کوئی کمبخت کشتی نذرِ طوفان ہو گئی
ورنہ ساحل پر اداسی اس قدر ہوتی نہیں
تیرا اندازِ تغافل ہے، جنوں میں آج کل
چاک کر لیتا ہوں دامن اور خبر ہوتی نہیں
ہاۓ کس عالم میں چھوڑا ہے تمہارے غم نے ساتھ
جب قضا بھی زندگی کی چارہ گر ہوتی نہیں
رنگ محفل چاہتا ہے اک مکمل انقلاب
چند شمعوں کے بھڑکنے سے سحر ہوتی نہیں
اضطرابِ دل سے قابلؔ وہ نگاہِ بے نیاز
بے خبر معلوم ہوتی ہے، مگر ہوتی نہیں

قابل اجمیری

No comments:

Post a Comment