کچھ اس لئے مجھے نقصان ہونے والا نہيں
کہ مجھ پہ اب کوئی احسان ہونے والا نہيں
شروعِ عشق میں ہم بھی یہی سمجھتے تھے
اور اب یہ مرحلہ آسان ہونے والا نہيں
جہاں کو میری خبر ہے مجھے جہان کی ہے
ہمارے دل میں نہيں، آنکھ میں ٹھہر جاؤ
کہ یہ علاقہ بیابان ہونے والا نہیں
مجھے ذرا سا اگر خوف ہے تو خود سے ہے
میں دوستوں سے پریشان ہونے والا نہيں
تِری طلب کی ہوا میں نہيں اڑے گا کبھی
یہ دل ہے، تختِ سلیمان ہونے والا نہیں
کہا بھی تھا کہ مِرا عشق جان لیوا ہے
تُو کہہ رہا تھا یہ سرطان ہونے والا نہيں
یہیں کہیں سےاٹھے گی کوئی صدا عامیؔ
اب آسماں سے تو اعلان ہونے والا نہيں
عمران عامی
No comments:
Post a Comment