Tuesday 20 September 2016

صاف ظاہر ہے نگاہوں سے کہ ہم مرتے ہیں

صاف ظاہر ہے نگاہوں سے کہ ہم مرتے ہیں
منہ سے کہتے ہوۓ یہ بات مگر ڈرتے ہیں
ایک تصویرِ محبت ہے جوانی گویا
جس میں رنگوں کے عوض خونِ جگر بھرتے ہیں
عشرتِ رفتہ نے جا کر نہ کِیا یاد ہمیں
عشرتِ رفتہ کو ہم یاد کِیا کرتے ہیں
آسماں سے کبھی دیکھی نہ گئی اپنی خوشی
اب یہ حالات ہیں کہ ہم ہنستے ہوۓ ڈرتے ہیں
شعر کہتے ہو بہت خوب تم اخترؔ، لیکن
اچھے شاعر یہ سنا ہے کہ جواں مرتے ہیں

اختر انصاری

No comments:

Post a Comment