رخ تو وہ ماہتاب سا دیکھا
تن بھی موتی کی آب سا دیکھا
کی نِگہ چشم پر تو اس کو بھی
ساغرِ پُر شباب سا دیکھا
پیرہن، برگِ گل پہ جوں شبنم
تھے ابھی ہم جواں نظیرؔ اور اب
رنگِ مُو، سِیم ناب سا دیکھا
شام کی صبح ہو گئی دم میں
یہ تو کچھ ہم نے خواب سا دیکھا
نظیر اکبر آبادی
No comments:
Post a Comment