Monday 19 September 2016

رخ تو وہ ماہتاب سا دیکھا

رخ تو وہ ماہتاب سا دیکھا
تن بھی موتی کی آب سا دیکھا
کی نِگہ چشم پر تو اس کو بھی
ساغرِ پُر شباب سا دیکھا
پیرہن، برگِ گل پہ جوں شبنم
عرقِ تن، گلاب سا دیکھا
تھے ابھی ہم جواں نظیرؔ اور اب
رنگِ مُو، سِیم ناب سا دیکھا
شام کی صبح ہو گئی دم میں
یہ تو کچھ ہم نے خواب سا دیکھا

نظیر اکبر آبادی

No comments:

Post a Comment