مجھ کو معلوم نہیں کہ ہِجر کے قاتل لمحے
تُو نے کس آگ میں جل جل کے گزارے ہوں گے
کبھی لفظوں میں تھکن تُو نے سمیٹی ہو گی
کبھی کاغذ پہ فقط اشک اتارے ہوں گے
یہ بھی ممکن ہے کہ گزرا ہُوا لمحہ لمحہ
تیرے نزدیک فقط یاد کی پرچھائیں ہو
دور کی جیسے تِری اس سے شناسائی ہو
جس طرح دھوپ دسمبر کے درِیچے سے لگی
بے ارادہ آنگن میں اتر آئی ہو
جیسے محفل میں کسی شخص کی تنہائی ہو
عاطف سعید
No comments:
Post a Comment