پھر اداسی میں شوخ رنگ آیا
شہر میں جب سخی کا سنگ آیا
وہ جو پلتی ہے آستینوں میں
میں تو اس دوستی سے تنگ آیا
ایک دن تو اسے الجھنا تھا
میں تو مجبور تھا ہٹانے پر
راہ میں وہ مثالِ سنگ آیا
اور تھی منزلِ مراد مِری
راستے میں ہزار جھنگ آیا
توقیر عباس
No comments:
Post a Comment