آندھی میں چراغ جل رہے ہیں
کیا لوگ ہوا میں پل رہے ہیں
اے جلتی رُتو! گواہ رہنا
ہم ننگے پاؤں چل رہے ہیں
کہساروں پہ برف جب سے پگھلی
مٹی میں ابھی نمی بہت ہے
پیمانے ہنوز ڈھل رہے ہیں
کہہ دے کوئی جا کے طائروں سے
چیونٹی کے بھی پر نکل رہے ہیں
کچھ اب کے ہے دھوپ میں بھی تیزی
کچھ ہم بھی شرر اگل رہے ہیں
پانی پہ ذرا سنبھل کے چلنا
ہستی کے قدم پھسل رہے ہیں
کہہ دے یہ کوئی مسافروں سے
شام آئی ہے سائے ڈھل رہے ہیں
گردش میں نہیں زمیں ہی اخترؔ
ہم بھی دبے پاؤں چل رہے ہیں
اختر ہوشیار پوری
No comments:
Post a Comment