Tuesday 20 September 2016

آندھی میں چراغ جل رہے ہیں

آندھی میں چراغ جل رہے ہیں
کیا لوگ ہوا میں پل رہے ہیں
اے جلتی رُتو! گواہ رہنا
ہم ننگے پاؤں چل رہے ہیں
کہساروں پہ برف جب سے پگھلی
دریا تیور بدل رہے ہیں
مٹی میں ابھی نمی بہت ہے
پیمانے ہنوز ڈھل رہے ہیں
کہہ دے کوئی جا کے طائروں سے
چیونٹی کے بھی پر نکل رہے ہیں
کچھ اب کے ہے دھوپ میں بھی تیزی
کچھ ہم بھی شرر اگل رہے ہیں
پانی پہ ذرا سنبھل کے چلنا
ہستی کے قدم پھسل رہے ہیں
کہہ دے یہ کوئی مسافروں سے
شام آئی ہے سائے ڈھل رہے ہیں
گردش میں نہیں زمیں ہی اخترؔ
ہم بھی دبے پاؤں چل رہے ہیں

اختر ہوشیار پوری

No comments:

Post a Comment