Thursday 22 September 2016

غموں کی خوشی مار ڈالے گی اک دن

غموں کی خوشی مار ڈالے گی اک دن
یہ دیوانگی مار ڈالے گی اک دن
میں سوچوں نہ سوچوں، میں چاہوں نہ چاہوں
یہی بے بسی مار ڈالے گی اک دن
جو بچتا رہا موت سے ہر قدم پر
اسے زندگی مار ڈالے گی اک دن
مِری زندگی میں تمہاری کمی ہے
مجھے یہ کمی مار ڈالے گی اک دن
جسے تپتے سورج سے ٹھنڈک مِلی ہے
اسے چاندنی مار ڈالے گی اک دن
اسی ڈر سے میں بولتا جا رہا ہوں
مجھے خامشی مار ڈالے گی اک دن
یہ انگار جگنو سمجھ کر نہ چھُونا
یہ سادہ دلی مار ڈالے گی اک دن
غموں کے ہو گاہک، ہنسی بیچتے ہو
یہ سوداگری مار ڈالے گی اک دن
دکھی ہے تو عاطفؔ تو رو لے خدارا
تجھے یہ ہنسی مار ڈالے گی اک دن

عاطف سعید

No comments:

Post a Comment