مِرے خلاف عدالت بھی تھی زمانہ بھی
مجھےتو جرم بتانا بھی تھا، چھپانا بھی
اور اب کی بار تو ایسے کمان کھینچی ہے
کہ تیر لے اڑا شانہ بھی اور نشانہ بھی
جو سانپ غیر ضروری تھے مار ڈالے ہیں
ہماری کوزه گری سے جہان واقف تھا
اور اب تو سیکھ لیے آئینے بنانا بھی
ہمارے شہر کے لوگوں کو خوب آتا ہے
کسی کو سر پہ بٹھانا بھی اور گِرانا بھی
تم اس لیے بھی مجھے اجنبی نہيں لگتے
کہ تم سے ایک تعلق تھا غائبانہ بھی
یہ مَے کشوں کا توازن بھی کیا توازن ہے
کھڑے بھی رہنا سہولت سے لڑکھڑانا بھی
مِرا نہيں، مِرے ایمان کا تقاضا تھا
کہ مجھ سے عشق کرے کوئی کافرانہ بھی
یونہی تو میر کے در پر نہيں بٹھائے گئے
ہمارے پاس غزل بھی تھی اور بہانہ بھی
عمران عامی
No comments:
Post a Comment