Sunday 25 September 2016

عام فیضان غم نہیں ہوتا

عام فیضانِ غم نہیں ہوتا
ہر نفس محترم نہیں ہوتا
یا محبت میں غم نہیں ہوتا
یا مِرا شوق کم نہیں ہوتا
نامرادی نے کر دیا خوددار
اب سرِ شوق خم نہیں ہوتا
شوق ہی بدگمان ہوتا ہے
اس طرف سے ستم نہیں ہوتا
راستہ ہے کہ کٹتا جاتا ہے
فاصلہ ہے کہ کم نہیں ہوتا
وقت کرتا ہے پرورش برسوں
حادثہ ایک دم نہیں ہوتا
ٹوٹ جاتا ہے دل مگر قابلؔ
عشق مانوسِ غم نہیں ہوتا​

قابل اجمیری

No comments:

Post a Comment