Saturday 17 September 2016

وہ بے کلی تھی ابابیل کی اڑانوں میں

وہ بے کلی تھی ابابیل کی اُڑانوں میں 
کہ سوگوار مِلے بادل آسمانوں میں
خبر نہیں ہے جنہیں بارشوں کے موسم کی
مزے سے بیٹھے ہیں کاغذ کے شامیانوں میں
نہ جائیں چھوڑ کے خالی بتاؤ لوگوں کو
بلائیں رہتی ہیں اُجڑے ہوۓ مکانوں میں
ان آئینوں کی طرح مجھ میں عکس ہیں لاکھوں
جو ریزہ ریزہ جَڑے ہوں نگار خانوں میں
کچھ ایسے پیار سے کی موت عاشقوں نے قبول
یہ لفظ آۓ گا اب زندگی کے معنوں میں
یہ ماضیوں کا یہ مستقبلوں کا ٹکراؤ
مِرا زمانہ بَٹا ہے کئی زمانوں میں
یہ چھُوٹ بھی ہے تمہیں اب کے اے قفس والو
مناؤ جشنِ اسیری تم آشیانوں میں
مِلا نہ جام تو ہم تشنہ لب سجا لیں گے
تمہاری آنکھوں کی تصویر بادہ خانوں میں
زمین پر تو ٹھکانہ کوئی مِلا نہ قتیلؔ
گپھا بنائیں گے ہم چاند کی چٹانوں میں

قتیل شفائی

No comments:

Post a Comment