وہ بے کلی تھی ابابیل کی اُڑانوں میں
کہ سوگوار مِلے بادل آسمانوں میں
خبر نہیں ہے جنہیں بارشوں کے موسم کی
مزے سے بیٹھے ہیں کاغذ کے شامیانوں میں
نہ جائیں چھوڑ کے خالی بتاؤ لوگوں کو
ان آئینوں کی طرح مجھ میں عکس ہیں لاکھوں
جو ریزہ ریزہ جَڑے ہوں نگار خانوں میں
کچھ ایسے پیار سے کی موت عاشقوں نے قبول
یہ لفظ آۓ گا اب زندگی کے معنوں میں
یہ ماضیوں کا یہ مستقبلوں کا ٹکراؤ
مِرا زمانہ بَٹا ہے کئی زمانوں میں
یہ چھُوٹ بھی ہے تمہیں اب کے اے قفس والو
مناؤ جشنِ اسیری تم آشیانوں میں
مِلا نہ جام تو ہم تشنہ لب سجا لیں گے
تمہاری آنکھوں کی تصویر بادہ خانوں میں
زمین پر تو ٹھکانہ کوئی مِلا نہ قتیلؔ
گپھا بنائیں گے ہم چاند کی چٹانوں میں
قتیل شفائی
No comments:
Post a Comment