Monday, 26 September 2016

کوئی خورشید جب بجھ کر مری آنکھوں میں مرتا ہے

کوئی خورشید جب بجھ کر مِری آنکھوں میں مرتا ہے
تو وحشت میں مِرے ہر سُو اندھیرا رقص کرتا ہے
جسے اوجِ ثریا پر پہنچ جانے کی جلدی ہو
وہی طائر بلندی کی حدوں سے گِر کے مرتا ہے
اکیلا چاند کیوں ہر روز میرا دل دُکھانے کو
کسی کا عکس چپکے سے مِری کھڑکی میں دھرتا ہے
نہایت خوبصورت پینٹنگ کو رنگِ خوں دے کر
مصور کس طرح شہ کار کی تکمیل کرتا ہے
میں مٹی سے تراشیدہ، مِرا انجام ہے مٹی
مگر دل مانتا کب ہے، مگر دل کب سُدھرتا ہے
حویلی میں نہایت قیمتی ملبوس رُلتے ہیں
حویلی سے پرے مزدور سردی میں ٹھِٹھرتا ہے

عبدالرحمان واصف

No comments:

Post a Comment