کوئی خورشید جب بجھ کر مِری آنکھوں میں مرتا ہے
تو وحشت میں مِرے ہر سُو اندھیرا رقص کرتا ہے
جسے اوجِ ثریا پر پہنچ جانے کی جلدی ہو
وہی طائر بلندی کی حدوں سے گِر کے مرتا ہے
اکیلا چاند کیوں ہر روز میرا دل دُکھانے کو
نہایت خوبصورت پینٹنگ کو رنگِ خوں دے کر
مصور کس طرح شہ کار کی تکمیل کرتا ہے
میں مٹی سے تراشیدہ، مِرا انجام ہے مٹی
مگر دل مانتا کب ہے، مگر دل کب سُدھرتا ہے
حویلی میں نہایت قیمتی ملبوس رُلتے ہیں
حویلی سے پرے مزدور سردی میں ٹھِٹھرتا ہے
عبدالرحمان واصف
No comments:
Post a Comment