کسی کو اپنے عمل کا حساب کیا دیتے
سوال سارے غلط تھے، جواب کیا دیتے
خراب صدیوں کی بے خوابیاں تھیں آنکھوں میں
اب ان بے انت خلاؤں میں خواب کیا دیتے
ہوا کی طرح مسافر تھے دلبروں کے دل
شراب دل کی طلب تھی شرع کے پہرے میں
ہم اتنی تنگی میں اس کو شراب کیا دیتے
منیرؔ دشت شروع سے سراب ایسا تھا
اس آئینے کو تمنا کی آب کیا دیتے
منیر نیازی
No comments:
Post a Comment