Sunday, 18 September 2016

اور ہیں کتنی منزلیں باقی

اور ہیں کتنی منزلیں باقی
جان کتنی ہے جسم میں باقی
زندہ لوگوں کی بود و باش میں
مردہ لوگوں کی عادتیں باقی
اس سے ملنا خوابِ ہستی میں
خواب معدوم، حسرتیں باقی
بہہ گئے رنگ و نور کے چشمے
رہ گئی ان کی رنگتیں باقی
جن کے ہونے سے ہم بھی ہیں اے دل
شہر میں ہیں وہ صورتیں باقی
وہ تو آ کے منیرؔ جا بھی چکا
اک مہک سی ہے باغ میں باقی

منیر نیازی

No comments:

Post a Comment