Saturday, 17 September 2016

پیہم موج امکانی میں

پیہم موجِ امکانی میں
اگلا پاؤں نئے پانی میں
صف شفق مِرے بستر تک
ساتوں رنگ فراوانی میں
بدن وصال آہنگ ہوا سا
قبا عجیب پریشانی میں
کیا سالم پہچان ہے اس کی
وہ کہ نہیں اپنے ثانی میں
ٹوک کے جانے کیا کہتا وہ
اس نے سنا سب بے دھیانی میں
یاد تِری جیسے کہ سرِ شام
دُھند اتر جائے پانی میں
خود سے کبھی مل لیتا ہوں میں
سناٹے میں،۔۔ ویرانی میں
آخر سوچا، دیکھ ہی لیجے
کیا کرتا ہے وہ من مانی میں
ایک دِیا آکاش میں بانیؔ
ایک چراغ سا پیشانی میں

منچندا بانی

No comments:

Post a Comment