اِدھر کی آئے گی اک رَو اُدھر کی آئے گی
کہ میرے ساتھ تو مٹی سفر کی آئے گی
ڈھلے گی شام جہاں کچھ نظر نہ آئے گا
پھر اس کے بعد بہت یاد گھر کی آئے گی
نہ کوئی جا کے اسے دُکھ مِرے سنائے گا
ابھی بلند رکھو یارو! آخری مشعل
اِدھر تو پہلی کِرن کیا سحر کی آئے گی
کچھ اور موڑ گزرنے کی دیر ہے بانیؔ
صدا، نہ گرد کسی ہم سفر کی آئے گی
منچندا بانی
No comments:
Post a Comment