Tuesday 27 September 2016

محبت میں جگر گزرے ہیں ایسے بھی مقام اکثر

محبت میں جگر گزرے ہیں ایسے بھی مقام اکثر
کہ خود لینا پڑا ہے اپنے دل سے انتقام اکثر
کہاں حسنِ تمامِ یاد و تکلیفِ کرم کوشی
بدل دیتی ہے دنیا اک نگاہِ ناتمام اکثر
مِری رِندی بھی کیا رِندی، مِری مستی بھی کیا مستی
مِری توبہ بھی بن جاتی ہے مے خانہ بہ جام اکثر
محبت نے اسے آغوش میں بھی پا لیا آخر
تصور ہی میں رہتا تھا جو اک محشر خرام اکثر
جگرؔ ایسا بھی دیکھا ہے کہ ہنگامِ سِیہ مستی
نظر سے چھپ گئے ہیں ساقی و مِینا و جام اکثر

جگر مراد آبادی

No comments:

Post a Comment