Tuesday, 20 September 2016

کیا پوچھتے ہو یارو حال تباہ میرا

کیا پوچھتے ہو یارو! حالِ تباہ میرا
بے مہر ہو گیا ہے وہ رشکِ ماہ میرا
تیری یہ کم نگاہی اور میرا یہ تڑپنا
تُو ہی بتا کہ کیونکر ہو گا نِباہ میرا
سودا ہوا ہے مجھ کو زلفوں کا تیری یاں تک
نشتر لگے تو نکلے لوہو سیاہ میرا
گر راست مجھ سے پوچھو قبلہ بھی اس کو بھولے
دیکھے کبھی جو زاہد وہ کج کلاہ میرا
قسمت میں ہجر ہی تھا اپنی حسنؔ وگرنہ
کیا جرم اس میں اس کا اور کیا گناہ میرا​

میر حسن دہلوی

No comments:

Post a Comment