اشکبار استعارے
خموشی کے کمرے کے کونے میں چھُپ کر
صدا رو رہی ہے
اندھیرے کے شیشے کے اس پار تک کر
ضیا رو رہی ہے
چراغوں کی قبروں کے کتبوں سے لگ کر
ہوا رو رہی ہے
مِری اوک کی سِیپ میں پھُول رکھ کر
دُعا رو رہی ہے
فنا بن کے پیڑوں کے ساۓ میں رک کر
بقا رو رہی ہے
صدا رو رہی ہے
اندھیرے کے شیشے کے اس پار تک کر
ضیا رو رہی ہے
چراغوں کی قبروں کے کتبوں سے لگ کر
ہوا رو رہی ہے
مِری اوک کی سِیپ میں پھُول رکھ کر
دُعا رو رہی ہے
فنا بن کے پیڑوں کے ساۓ میں رک کر
بقا رو رہی ہے
دانیال طریر
No comments:
Post a Comment