یہ جو غم کا حصار رہتا ہے
کون آنکھوں کے پار رہتا ہے
عشق جب اوڑھ لے جدائی تو
انتظار، ۔۔۔ انتظار رہتا ہے
روز کرتے ہو اک نیا وعدہ
منزلِ عشق خوب ہو لیکن
راستا خار دار رہتا ہے
بات یہ تم بھی جانتے ہو گے
دل پہ کب اختیار رہتا ہے
یاد آتی ہے ایک پَل کیلئے
دیر تک پھر خُمار رہتا ہے
دل سمجھتا ہے جب حقیقت کو
کیوں یہ پھر بے قرار رہتا ہے
روٹھ بھی جائے یہ محبت تو
مخملیں سا حصار رہتا ہے
یوں پرائے دکھوں پہ عاطفؔ جی
کون اب اشک بار رہتا ہے؟
عاطف سعید
No comments:
Post a Comment