Thursday, 22 September 2016

یہ جو غم کا حصار رہتا ہے

یہ جو غم کا حصار رہتا ہے 
کون آنکھوں کے پار رہتا ہے
عشق جب اوڑھ لے جدائی تو
انتظار، ۔۔۔ انتظار رہتا ہے
روز کرتے ہو اک نیا وعدہ 
یوں بھلا اعتبار رہتا ہے ؟
منزلِ عشق خوب ہو لیکن
راستا خار دار رہتا ہے
بات یہ تم بھی جانتے ہو گے 
دل پہ کب اختیار رہتا ہے
یاد آتی ہے ایک پَل کیلئے
دیر تک پھر خُمار رہتا ہے
دل سمجھتا ہے جب حقیقت کو
کیوں یہ پھر بے قرار رہتا ہے
روٹھ بھی جائے یہ محبت تو
مخملیں سا حصار رہتا ہے
یوں پرائے دکھوں پہ عاطفؔ جی
کون اب اشک بار رہتا ہے؟

عاطف سعید

No comments:

Post a Comment