Tuesday 27 September 2016

جتنا آب و دانہ ہے

جتنا آب و دانہ ہے
اُتنا ہی ویرانہ ہے
ہم نے اپنی نیندوں کو
خوابوں سے پہچانا ہے
باغ کا تُربت ہو جانا
پھولوں کا اٹھ جانا ہے
زخموں کی گہرائی بھی
وحشت کا پیمانہ ہے
گھر کے خالی کمروں میں
میرا ایک گھرانہ ہے

ذوالفقار عادل

No comments:

Post a Comment