Tuesday 20 September 2016

عشق لامحدود جب تک رہنما ہوتا نہیں

عشق لا محدود جب تک رہنما ہوتا نہیں
زندگی سے زندگی کا حق ادا ہوتا نہیں
بے کراں ہوتا نہیں، بے انتہا ہوتا نہیں
قطرہ جب تک بڑھ کے قلزم آشنا ہوتا نہیں
زندگی اک حادثہ ہے،۔ اور ایسا حادثہ
موت سے بھی ختم جس کا سلسلہ ہوتا نہیں
درد سے معمور ہوتی جا رہی ہے کائنات
اک دلِ انساں مگر درد آشنا ہوتا نہیں
اس مقامِ قرب تک اب عشق پہنچا ہے جہاں
دیدہ و دل کا بھی اکثر واسطہ ہوتا نہیں
اللہ، اللہ، یہ کمالِ ارتباطِ حُسن و عشق
فاصلے  ہوں لاکھ دل سے دل جدا ہوتا نہیں
وقت آتا ہے اک ایسا بھی سرِ بزمِ جمال
سامنے ہوتے ہیں وہ اور سامنا ہوتا نہیں
کیا قیامت ہے کہ اس دورِ ترقی میں جگرؔ
آدمی سے آدمی کا حق ادا ہوتا نہیں

جگر مراد آبادی

No comments:

Post a Comment