جب پکارا ہے تجھے اپنی صدا آئی ہے
دل کی دیواروں سے لپٹی ہوئی تنہائی ہے
ہے کوئی جوہری اشکوں کے نگینوں کا یہاں
آنکھ بازار میں اک جنسِ گراں لائی ہے
دل کی بستی میں تم آئے ہو تو کیا پاؤ گے
دل بھی آباد ہے اک شہرِ خموشاں کی طرح
ہر طرف لوگ، مگر عالمِ تنہائی ہے
جسکی آنکھوں سے برستی ہیں لہو کی بوندیں
یہ وہی محسنِؔ آشفتہ و سودائی ہے
محسن احسان
No comments:
Post a Comment