Saturday, 17 September 2016

رہی نہ یارو آخر سکت ہواؤں میں

رہی نہ یارو! آخر سکت ہواؤں میں
چار دِیے روشن ہیں چار دِشاؤں میں
کائ جمی تھی سینے میں جانے کب سے
چیخ اٹھا وہ آ کر کھُلی فضاؤں میں 
اپنی گم آوازیں، آؤ! تلاش کریں
سبز پرندوں کی سیال صداؤں میں
میں بھی کرید رہا تھا خاک کی پَرتوں کو
وہ بھی جھانک رہا تھا دُور خلاؤں میں
ٹھنڈی چھاؤں دیکھ کے وہ آ بیٹھا تھا
الجھ گیا برگد کی گھنی جٹاؤں میں
گھاٹ گھاٹ کوشش کی پار اترنے کی
لہر کوئی دشمن تھی سب دریاؤں میں
وہ سر سبز زمینوں تک ہم سفر رہا
اڑ نہ سکا پھر میرے ساتھ ہواؤں میں
پانی ذرا برسنے دے، منظر پھر دیکھ
رنگ چھُپے ہیں سب ان سِیہ گھٹاؤں میں
آ میں تیرے من میں جھانکوں اور بتاؤں
کیوں تاثیر نہیں ہے تِری دعاؤں میں
سب آپس میں لڑ کر بستی چھوڑ گئے
خوش خوش جا آباد ہوئے صحراؤں میں
ایک طلب نے بانیؔ بہت خراب کیا
آخر ہم بھی ہوۓ شمار گداؤں میں

منچندا بانی

No comments:

Post a Comment