Saturday 17 September 2016

دشت دیکھے ہیں گلستاں دیکھے

دشت دیکھے ہیں، گلستاں دیکھے
تیرے جلوے یہاں، وہاں، دیکھے
اس کو کہتے ہیں تیرا لطف و کرم
خشک شاخوں پہ آشیاں دیکھے 
جو جہاں کی نظر میں کانٹا تھے
ہم نے آباد وہ مکاں دیکھے
دوستوں میں ہے تیرے لطف کا رنگ
کوئی کیوں بُغضِ دُشمنان دیکھے
جو نہیں چاہتا اماں تیری
مانگ کر غیر سے اماں دیکھے
تیری قدرت سے ہے جسے انکار
اٹھ کے وہ صُبح کا سماں دیکھے
یہ حسِیں سلسلہ ستاروں کا
کوئی تا حدِ آسماں دیکھے
ایک قطرہ جہاں نہ مِلتا تھا
ہم نے چشمے وہاں رواں دیکھے
کس نے مٹی میں رُوح پھونکی ہے
کوئی یہ ربطِ جسم و جاں دیکھے
دیکھ کر پیچ و تاب دریا کا
یہ سفینے پہ بادباں دیکھے
جس کو تیری رضا سے مطلب ہے
سُود دیکھے، نہ وہ زیاں دیکھے

باقی صدیقی

No comments:

Post a Comment