سو بار فرطِ شوق سے بھنورا چکے ہیں ہم
آبادیاں بدن کی بھی کھنڈرا چکے ہیں ہم
تیری طلب کسے ہے یہاں بادِ آگہی
اس عہدِ بے حواس کو لچرا چکے ہیں ہم
لینا ہے تم سے کیا ہمیں اے شب کے راہیو
بس چوم کر ہی سنگِ گراں چھوڑ دیتے ہیں
مضبوط بازوؤں کو بھی صفرا چکے ہیں ہم
لیکن یہ بھید کھل نہ سکا کھیل ہے یہ کیا
آنکھوں کو ساری دنیا میں سفرا چکے ہیں ہم
اے ابرِ صبحِ عشق! ضرورت نہیں تِری
سیپی کا بطن ریت سے گہرا چکے ہیں ہم
ذروں کے دِیپ کالی فضاؤں کو سونپ کر
اے ارضِ بے شعاع! تجھے قمرا چکے ہیں ہم
سعادت سعید
No comments:
Post a Comment