Friday, 16 September 2016

بیچ چوراہے ہوئے جاتے ہیں ہم خود نیلام

بیچ چوراہے ہوئے جاتے ہیں ہم خود نیلام
عصرِ حاضر کے بہی خواہوں پہ کیسا الزام
خون رلاتے ہیں ہمیں کاغذی سرمائے کے بھوت
ایسا لگتا ہے کہ بکتے ہیں ممالک بے دام
کھل رہے ہیں نئے مقتل بھی انہیں کے دم سے
جن کو رہتا ہے فقط عظمتِ انسان سے کام
یعنی جمہور کے راکھے بھی ہیں وہ امن طلب
جن کے ہونٹوں پہ چمکتا ہے سدا جنگ کا نام
بے گناہوں کی ہلاکت میں ہلاکو کی مثال
ایسے چنگیز کہ جو پیتے ہوں بس خون کے جام
ان کے ہر قرئیے کا انسان ہے ایسا آزاد
جس جگہ چاہے وہ عالم میں بچھا سکتا ہے دام

سعادت سعید

No comments:

Post a Comment