نئی ہواؤں کی صحبت بگاڑ دیتی ہے
کبوتروں کو کھُلی چھت بگاڑ دیتی ہے
جو جُرم کرتے ہیں اتنے بُرے نہیں ہوتے
سزا نہ دے کے عدالت بگاڑ دیتی ہے
مِلانا چاہا ہے انساں کو جب بھی انساں سے
ہمارے پیر تقی میر نے کہا تھا کبھی
میاں! یہ عاشقی عزت بگاڑ دیتی ہے
راحت اندوری
No comments:
Post a Comment