Saturday, 17 September 2016

دیکھیں گے کبھی ہم زعم ترا تو نے کیا ہم کو جانا ہے

دیکھیں گے کبھی ہم زعم تِرا، تُو نے کیا ہم کو جانا ہے
اے گردشِ دوراں! ٹھہر ذرا، ہاتھوں میں ابھی پیمانا ہے
پی کر جسے ہستی جھُوم اٹھے سن کر جسے اشک چھلک اٹھے
بادہ وہی بادہ ہے اے دل!،۔۔۔۔ افسانا وہی افسانا ہے
احساس تو ہے ان کو بھی مگر کچھ اور ہی ہے اندازِ نظر
کچھ فکرِ جمالِ شمع بھی ہے، کچھ فکر پرِ پروانا ہے
اس سوزِ دوروں کی بستی میں اس وہم و گماں کی دنیا میں
فرزانوں سے پوچھا کیا گزری، دیوانا تو پھر دیوانا ہے
غیروں کی شکایت کیوں کیجے، اربابِ جفا کو شکوہ ہے
یہ منزلِ عشق ہے اے بیکلؔ، اپنا بھی یہاں بیگانا ہے

بیکل اتساہی

No comments:

Post a Comment