مرنا لگا رہے گا یہاں جی تو لیجیے
ایسا بھی کیا پرہیز، ذرا سی تو لیجیے
اب رِند بچ رہے ہیں ذرا تیز رقص ہو
محفل سے اٹھ لیے ہیں نمازی تو لیجیے
پتوں سے چاہتے ہو بجیں ساز کی طرح
خاموش رہ کے تم نے ہمارے سوال پر
کر دی ہے شہر بھر میں منادی تو لیجیے
یہ روشنی کا درد، یہ سرہن ،یہ آرزو
یہ چیز زندگی میں نہیں تھی تو لیجیے
پھِرتا ہے کیسے کیسے سوالوں کے ساتھ وہ
اس آدمی کی جامہ تلاشی تو لیجیے
دشینت کمار
No comments:
Post a Comment