دل مر چکا ہے اب نہ مسیحا بنا کرو
یا ہنس پڑو، یا ہاتھ اٹھا کر دعا کرو
اب حسن کے مزاج سے واقف ہوا ہوں میں
اک بھول تھی جو تم سے کہا تھا وفا کرو
دل بھی صنم پرست، نظر بھی صنم پرست
جس سے ہجومِ غیر میں ہوتی ہیں چشمکیں
اس اجنبی نگاہ سے بھی آشنا کرو
اک سوز اک دھواں ہے پسِ پردۂ جمال
تم لاکھ شمعِ بزمِ رقیباں بنا کرو
تقریبِ عشق ہے یہ دمِ واپسیں نہیں
تم جاؤ اپنا فرضِ تغافل ادا کرو
وہ بزم سے نکال کے کہتے ہیں اے ظہیرؔ
جاؤ! مگر قریبِ رگِ جاں رہا کرو
ظہیر کاشمیری
No comments:
Post a Comment