Wednesday 14 September 2016

مرنا عذاب تھا کبھی جینا عذاب تھا

مرنا عذاب تھا کبھی جینا عذاب تھا 
میرا مشیر عشق سا خانہ خراب تھا 
وہ بارگاہ میری وفا کا جواز تھی
اس آستاں کی خاک مِرا ہی شباب تھا
دل بھی صنم پرست، نظر بھی صنم پرست
اس عاشقی میں خانہ ہمہ آفتاب تھا
تُو کب مآلِ جور و جفا کو سمجھ سکا
تیرا جمال تیرے لیے بھی حجاب تھا
وہ حسن کس قدر ادب آموز تھا ظہیرؔ
قد خامۂ رواں تھا، تو چہرہ کتاب تھا

ظہیر کاشمیری

No comments:

Post a Comment