Wednesday 14 September 2016

کسی کے ہجر میں گر ہم بھی مر لیتے تو کیا لیتے

کسی کے ہجر میں گر ہم بھی مر لیتے تو کیا لیتے
نہ یہ کرتے تو کیا پاتے، یہ کر لیتے، تو کیا لیتے
یقیناً ایسی ہی کچھ صورتِ حالات ہونی تھی
نہ اس کی بے وفائی کا اثر لیتے، تو کیا لیتے 
گزر جانا تھا اس نے روند کر قدموں تلے ہم کو
مثالِ ریگ رستے میں بکھر لیتے، تو کیا لیتے
اکیلے بیٹھ کر ساحل پہ اب لہریں تو گنتے ہیں
ہم اس دریائے خلقت میں اتر لیتے، تو کیا لیتے
اسی کے ہو کے رہتے زندگی بھر اور کیا ہوتا؟
اسے خوش کرنے کی خاطر یہ کر لیتے تو کیا لیتے
ہماری ایک نادانی ہمیں کس کام کا رکھتی؟
ذرا سوچو کہ ترکِ عشق کر لیتے، تو کیا لیتے

اعتبار ساجد

No comments:

Post a Comment