کس کو ملی تسکینِ ساحل، کس نے سر منجدھار کیا
اس طوفان سے گزرے جس نے ندی ندی کو پار کیا
اے فرزانو! دیوانوں کے جذبۂ دل کی قدر کرو
ان کی ایک نظر نے آتش،۔ آتش کو گلزار کیا
رنجِ محبت، رنجِ زمانہ دونوں ہم سے خائف ہیں
صحرا صحرا ہم نے نوکِ خار سے تلوے سہلائے
محفل محفل ہم نے اپنی وحشت کا اقرار کیا
ہم نے اپنے عشق کی خاطر زنجیریں بھی دیکھی ہیں
ہم نے ان کے حسن کی خاطر رقص بھی زیرِ دار کیا
بستی بستی آج ہماری سعئ وفا کی شہرت ہے
ہم نے ظہیرؔ اک عالم کو پابند نگاہِ یار کیا
ظہیر کاشمیری
No comments:
Post a Comment