میں سوچتا رہتا ہوں دماغوں میں نہیں جو
ہے کون سا وہ پھول کہ باغوں میں نہیں جو
ہوتی ہے کسی دیدۂ نم ناک کی لَو سے
وہ روشنی کیسی ہے چراغوں میں نہیں جو
دیکھو نہ مِرا جسم، مِری روح جلی تھی
پانی میں، زمینوں پہ، ہوا میں اُسے کھوجا
وہ کیسا نشاں ہے کہ سراغوں میں نہیں جو
اک کارِ مسلسل ہے اُسے چاہتے رہنا
لطف اُس کا لگاتار ہے ناغوں میں نہیں جو
اس محفلِ احباب کی سرشاری عجب ہے
وہ مَے بھی چھلک جاۓ ایاغوں میں نہیں جو
رنگت ہی نہیں آب و ہوا کا بھی اثر ہے
بگلوں میں کوئی بات ہے زاغوں میں نہیں جو
ناصرؔ ہیں عجب بولیاں طاؤسِ زماں کی
اشجار کے پُر غول کلاغوں میں نہیں جو
نصیر احمد ناصر
No comments:
Post a Comment