Friday 16 September 2016

میں سوچتا رہتا ہوں دماغوں میں نہیں جو

میں سوچتا رہتا ہوں دماغوں میں نہیں جو
ہے کون سا وہ پھول کہ باغوں میں نہیں جو
ہوتی ہے کسی دیدۂ نم ناک کی لَو سے 
وہ روشنی کیسی ہے چراغوں میں نہیں جو 
دیکھو نہ مِرا جسم، مِری روح جلی تھی 
یہ داغ ہے وہ جِلد کے داغوں میں نہیں جو
پانی میں، زمینوں پہ، ہوا میں اُسے کھوجا 
وہ کیسا نشاں ہے کہ سراغوں میں نہیں جو
اک کارِ مسلسل ہے اُسے چاہتے رہنا 
لطف اُس کا لگاتار ہے ناغوں میں نہیں جو
اس محفلِ احباب کی سرشاری عجب ہے 
وہ مَے بھی چھلک جاۓ ایاغوں میں نہیں جو
رنگت ہی نہیں آب و ہوا کا بھی اثر ہے 
بگلوں میں کوئی بات ہے زاغوں میں نہیں جو
ناصرؔ ہیں عجب بولیاں طاؤسِ زماں کی 
اشجار کے پُر غول کلاغوں میں نہیں جو

نصیر احمد ناصر

No comments:

Post a Comment