Tuesday 13 September 2016

اتنا آساں نہیں مسند پہ بٹھایا گیا میں

اتنا آساں نہیں مسند پہ بٹھایا گیا میں
شہرِ تہمت تیری گلیوں میں پھرایا گیا میں
یہ تو اب عشق میں جی لگنے لگا ہے کچھ کچھ
اس طرف پہلے پہل گھیر کے لایا گیا میں
خوف اتنا تھا کہ دیوار پکڑ کر نکلا
اس سے ملنے کیلئے صورتِ سایا گیا میں
تجھ سے کچھ کہنے کی ہمت ہی نہیں تھی ورنہ
ایک مدت تِری دہلیز تک آیا گیا میں
خلوتِ خاص میں بُلوانے سے پہلے تابشؔ
عام لوگوں میں بہت دیر بٹھایا گیا میں

عباس تابش

No comments:

Post a Comment