ہیں کہاں مکاں والے، کہہ رہا ہے دروازہ
بوجھ کب سے تالے کا سہہ رہا ہے دروازہ
اتنے دکھ اٹھا کر ہم کب کے ڈھے گئے ہوتے
جتنا غم جدائی کا سہہ رہا ہے دروازہ
قُفل توڑ کر کوئی اس میں آ کے بس جائے
زخم خوردہ دیواریں کھڑکیاں شکستہ ہیں
داستان ماضی کی کہہ رہا ہے دروازہ
میرا اک زمانہ تھا، اب نشانِ عبرت پوں
پر گزر نے والے سے کہہ رہا ہے دروازہ
میں نے خواب میں دیکھا اپنے گھر کا یہ منظر
ڈھے گئیں ہیں دیواریں،۔ بہہ رہا ہے دروازہ
شفیق برنی
No comments:
Post a Comment