باغوں میں دیکھے ہیں ہم نے بانکے اور سجیلے پیڑ
ہاتھ لگے تو مُرجھا جائیں ایسے بھی شرمیلے پیڑ
امرت ہی برسے تو شاید جنم جنم کی پیاس بجھے
جنگل جنگل سُوکھ رہے ہیں کیسے کیسے گیلے پیڑ
بہہ نکلی ہے جل کی دھارا چوٹی سے ڈھلوانوں میں
مولسری کے کنج میں آخر کیا ہے کام کٹیلی کا
ان کو تم مت ہاتھ لگانا یہ تو ہیں زہریلے پیڑ
بھیگی ہیں برسات کی راتیں جگنو جگمگ اڑتے ہیں
جنگل کی تاریک فضا میں لگتے ہیں چمکیلے پیڑ
اٹھتی ہیں جس اور نگاہیں، ڈال ڈال ہریالی ہے
ایسا وقت بھی آتا ہے جب پڑ جاتے ہیں پیلے پیڑ
پھولوں کی نگری میں جا کر اندھے ہو جاتے ہیں لوگ
آنکھوں میں بھر جاتے ہیں جب یارو! نین کٹیلے پیڑ
شفیق برنی
No comments:
Post a Comment