Friday 16 September 2016

چڑیوں کے چہچہانے کا منظر کہاں گیا

چِڑیوں کے چہچہانے کا منظر کہاں گیا
صحرا میں ڈھونڈتا ہوں مِرا گھر کہاں گیا
میرے لیے تو نقدِ متاعِ حیات تھا
ظالِم وہ تیرے ہاتھ کا پتھر کہاں گیا 
پھِرتا ہوں اپنے ہاتھ میں کانٹے لیے ہوئے
میرے نصیب کا وہ گلِ تر کہاں گیا
کیوں ہو  گیا ہے مُہر بلب انکے سامنے
اے دل! شکایتوں کا وہ دفتر کہاں گیا
سارے جہاں کے لوگ تو سیراب ہو گئے
میں تشنہ لب ہُوا تو سمندر کہاں گیا؟
گِر جائے گی شفیقؔ کسی دن فصیلِ جسم
در در کہیں گے لوگ کہ وہ در کہاں گیا

شفیق برنی

No comments:

Post a Comment