Tuesday, 13 September 2016

کہاں آنسوؤں کی یہ سوغات ہو گی

کہاں آنسوؤں کی یہ سوغات ہو گی
نئے لوگ ہوں گے، نئی بات ہو گی
میں ہر حال میں مسکراتا رہوں گا
تمہاری محبت، اگر ساتھ ہو گی
چراغوں کو آنکھوں میں محفوظ رکھنا
بڑی دور تک، رات ہی رات ہو گی
پریشاں ہو تم بھی، پریشان ہوں میں بھی
چلو مۓ کدے میں، وہیں بات ہو گی
چراغوں کی لَو سے، ستاروں کی ضَو تک
تمہیں میں مِلوں گا، جہاں رات ہو گی
جہاں وادیوں میں نئے پھول آئے
ہماری تمہاری، ملاقات ہو گی
صداؤں کو الفاظ ملنے نہ پائیں
نہ بادل گھِریں گے، نہ برسات ہو گی
مسافر ہیں ہم بھی، مسافر ہو تم بھی
کسی موڑ پر پھر ملاقات ہو گی

بشیر بدر

No comments:

Post a Comment